منگل، 26 مارچ، 2013

عشق بن یہ ادب نہیں آتا

0 تبصرے
❞ہمارے ادب کو اگر لوگوں کے ضمیر کا آئینہ دار ہونا ہے اسے نیکی اور سچائی سے ان کی محبت کا انصاف کا اور حسن کے ان تصورات کا اظہار کرنا ہے تو اسے زندگی کو ایک ہی آنکھ سے نہیں دیکھنا چاہیے، اور دوسری آنکھ کو شرما کر بند نہیں کر لینا چاہیے، آدھی سچائی جھوٹ سے بد تر ہے کیونکہ یہ آپ کو سماج کے مفاد کے بجائے اپنے خود غرضانہ مفاد کے لیے زندہ رہنا سکھاتی ہے، ہمارے ملک میں سچے ادیبوں نے سچائی کو کبھی نہیں چھپایا اور اس گہرے احساس سے لکھا ہے کہ ان کی تحریریں قارئین تک پہنچیں گی، اس قسم کی اشاعتیں انصاف کی جیت ہیں اور اس تعمیرِ نو کے سلسلہ عمل کی مظاہر ہیں جس کا انحصار ماضی اور حال کے متعلق سچائی پر ہے❝

ایک روسی جریدے سے لیے گئے اس اقتباس سے اس موضوع کی افادیت کو سمجھنا آسان ہوجاتا ہے ہر معاشرے کے اپنے قوانین اور ادب ہوا کرتے ہیں، ہماری مشرقی تہذیب میں جنس کی حدیں مذہب و اخلاق کی متعین کردہ ہیں جن کی پاسداری سے اصنافِ مخالف کے درمیان رشتوں کا تقدس اور احترام قائم ہے، اہلِ مغرب کے برعکس مشرقی اقدار کے مطابق یہاں مرد وزن کے رشتوں میں ابدی سچائیاں اور دائمی محبت کی تلاش میں مارے مارے پھرنے والے کم نہیں ہیں، کوئی کسی کے تیرِ نظر کا کھائل ہوا تو کوئی کسی کے ہجر میں سینہ چاک کرتا نظر آیا، عشق کی طلب میں سرگرداں سارے لوگ ایک ہی طرح کے ہوتے ہیں، لیکن قلمکار عام آدمی صرف قوتِ اظہار کے سبب مختلف سمجھا جاتا ہے، لیکن ادیب کی زندگی کا یہی اہم جزو اس کی سوانح حیات میں کہیں نظر نہیں آتا، انہیں انسان کی بجائے فرشتہ سمجھ لینے سے ہم اس حقیقت کو فراموش کر دیتے ہیں کہ وہ بھی بشری کمزوریوں کے باوصف بالکل نارمل انسان تھے اور ان کی تخلیقات کو اگر ان کی زندگی کے ان تلخ حقائق کو سامنے رکھ کر دیکھا جائے تو معنی ومفہوم مزید واضح ہوکر سامنے آئے گا.

ادب زندگی سے علیحدہ تو نہیں، ہمارا ادب ہماری زندگی کا پرتو ہی تو ہے، اس حوالے سے یہ بھی حقیقت ہے کہ صاحبانِ علم وقلم نے اگر عشق کے معرکے انجام نہ دیے ہوتے تو دنیائے ادب میں نِری خشکی کے سوا کچھ نظر نہ آتا، بہت جاوداں مصرعے وجود ہی میں نہ آتے، فیض کو یہ دعوی نہ کرنا پڑتا کہ:

تیری آنکھوں کے سوا دنیا میں رکھا کیا ہے

میر تقی میر تو یہاں تک فرما گئے:

عشق بن یہ ادب نہیں آتا

محبت، پریم، رومان، عشق کے الفاظ حسن کے جذبات سے وابستہ ہیں، عشق سے مشتق معاشقہ عربی زبان کا لفظ ہے، عشق کو عملی صورت دینا بہ الفاظِ دیگر معاشقے کا مفہوم ہے، بات جب معاشقہ تک پہنچتی ہے تو ہمارے معاشرے میں اسے اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ہماری ادبی تاریخ ان قلبی وارداتوں سے نا صرف بھری پڑی ہے بلکہ اٹی پڑی ہے، بلا شبہ یہ ضروری نہیں کہ سب تخلیقات کا مقصد یا محرک کوئی نہ کوئی معاشقہ ہو، مشاہیر کے رومان بیان کرتے ہوئے بہت سے ادیبوں نے اپنے ہم عصروں کی پگڑیاں بھی اچھالیں اور چونکہ معاشقے کھلے عام ہونے کا رواج بھی کبھی نہیں رہا اس لیے جہاں راز فاش ہوئے وہیں افسانوی انداز نے حقائق کو مسخ بھی کیا.

بظاہر ایک لطیفہ ہے کہ جوش ملیح آبادی اور ہری چند اختر کا ایک نائیکہ کے ہاں جانا ہوا، موصوفہ نے دعوت دی کہ اپنی پسند کی لڑکیاں چن لیں، ہری چند گویا ہوئے: ❞محترمہ ہم تو یہاں گانا سننے آئے ہیں پھر گھروں کو لوٹ جائیں گے❝ ان لڑکیوں میں سے ایک تیز طرار شوخ حسینہ بول پڑی: ❞اچھا تو آپ ❞انسپریشن❝ یہاں سے لیں گے اور ❞تخلیق❝ گھر پر جاکر کریں گے❝ مجروح سلطان پوری کہتے ہیں: ❞معاشقہ انسان کی فطرتِ ثانیہ ہے جب یہ جمال پرستی کی حد سے نکل کر ❞لذت پرستی❝ کی حد میں آجائے تو عیب بن جاتا ہے، یہ بڑے بڑے تاریخی واقعات کے ظہور کا سبب بھی بنا ہے اور بڑی چھوٹی تخلیقِ فن کا سبب بھی، معاشقہ پیغمبروں سے لے کر ہم آپ جیسے معمولی انسانوں کے لیے کوئی حیرت ناک ورثہ نہیں❝.

قمر رئیس کے مطابق ❞ادیب اور قاری کے ما بین باہمی خلوص یگانگت اور قربت کا رشتہ جتنا استوار ہوگا اُتنا ہی اس کے فن کی قدر وقیمت کا صحیح تعین ہوسکے گا یہ تو ممکن ہے کہ ہم کسی ادیب کی تخلیقات کو پڑھے بغیر اس کی زندگی اور شخصیت تک رسائی حاصل کر لیں، لیکن یہ ممکن نہیں کہ کسی ادیب کی شخصیت اور اس کی زندگی کے پیچ وخم سے گزرے بغیر ہمیں اُس کی تخلیقات اور اس کے فن کے رموز کا عرفان حاصل ہوسکے❝.

پروفیسر عنوان چشتی کے خیال میں ❞عشق انسانی جذبوں میں سے ایک بنیادی جذبہ ہے اس کی دو واضح صورتیں ہیں، ایک عشقِ حقیقی اور دوسری عشقِ مجازی، کبھی کبھی یہ دونوں میلانات ایک دوسرے میں تحلیل ہوتے ہوئے بھی نظر آتے ہیں، انسان کی اکثر فتوحات خاص طور پر ادب اور شاعری کا محور یا تو خدا ہے یا عورت، بہرحال عشقِ حقیقی ومجازی سے زندگی کا نگار خانہء ازل جگمگا رہا ہے❝.

ڈاکٹر سلیم اختر کے مطابق ❞عشق کے حوالے سے ان شخصیات کی ادبی اہمیت دیکھیں، ان کا تخلیقی مقام مدِ نظر رکھیں تو پھر یہ اندازہ ہوجاتا ہے کہ تخلیق کے پھول کھلنے کے لیے انہیں کیسے کیسے جذباتی المیوں کی کھاد مہیا کرنی پڑی، یہ سب زندگی کے کسی نہ کسی دور میں دل کے ہاتھوں مجبور بھی ہوئے اور اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ دیوتا نہ تھے، گوشت پوست کا جسم رکھتے تھے، دھڑکتے دل کے مالک تھے، خواب دیکھتے تھے اور پھر انہی خوابوں نے ارتفاع پاکر تخلیق کا روپ پایا، اگر مشرق کے قدغنوں والے معاشرے میں بھی حکایاتِ دل تخلیقی سطح پر تحریر کی جاتی ہیں تو پھر یورپ کا کیا کہنا جہاں مرد عورت نارمل انداز میں سماجی روابط رکھ سکتے ہیں اس کے باوجود کیٹس، فینی بران کے لیے خون تھوکتے مرا❝

پروفیسر گوپی چند نارنگ ایک جگہ رقمطراز ہیں ❞کلاسیکی اردو غزل میں مجموعی طور پر محبوب کا تصور گھٹا گھٹا، بھنچا بھنچا ہے، دکنی شاعروں کو چھوڑ کر صرف میر اور مصحفی کے ہاں تصورِ حسن کا ہندوستانی روپ ملتا ہے، دہلوی شعراء سے لے کر حالی وحسرت تک اردو غزل میں جس محبوب کی کارفرمائی ملتی ہے اس کی ارضیت سے انکار نہیں لیکن اس کی جمال آرائی ٹھیٹھ ہندوستانی انداز سے نہیں کی گئی، بیسوی صدی کے اوائل میں ابھرنے والے معروف فلسفی ❞اونا مونو❝ کا کہنا تھا ❞اگر اجسامِ لذت کے ذریعے ایک ہوتے ہیں تو روحیں درد کے رشتے کی بدولت متحرک ہوتی ہیں❝ اب ایسا بھی نہیں کہ ہر ادیب اس کارِ خیر میں شریک رہا ہو، بقول ظفر اقبال ایک بیوی ہے، چار بچے ہیں، عشق جھوٹا ہے، لوگ سچے ہیں، پروفیسر محمد حسن کہتے ہیں ❞اگر گھر میں پہلے سے ہی کوئی نیک بخت بیٹھی ہو تو بقول غالب وہی طوبی کی ایک شاخ وہی حور، زندگی اجیرن کرنے کے لیے کافی ہوگی، عشق اور مُشک میں بھی فرق ہوتا ہے، ایک معاملہ ہو ہے جیسے نظیر اکبر آبادی نے بیان کیا ہے کہ دلشاد کیا، خوش وقت ہوئے اور چل نکلے، غالب نے اسی لیے مشورہ دیا تھا کہ مصری کی مکھی بنو، شہد کی مکھی نہ بنو، کسی مردِ دانا کا قول ہے کہ عشق کرنا آسان ہے مگر چھوڑنا مشکل ہے.

یہ وضاحت ضروری سمجھتا ہوں کہ یہ مضمون اہلِ قلم کے معاشقوں کا کامل تذکرہ ہرگز نہیں، چیدہ چیدہ شخصیات کی بابت مستند کتب وجرائد سے لی گئی معلومات کا ایک نمونہ ہے، اگر کہیں کوئی لغزش ہوئی تو میری علمی کوتاہی ہوگی، نیت کی خرابی نہیں.

اردو ادب کی تاریخ کا اس حوالہ سے جائزہ لیتے ہیں تو قلی قطب شاہ کی بھاگ متی یا مشتری میر بنت عم غالب کی ستم پیشتہ ڈومنی، مؤمن کی اُمت الفاطمہ صاحب جی، داغ کی منی بائی حجاب، فانی کی نور جہاں اور تفن جان، اختر شیرانی کی سلمی، مجاز کی نورا، میرا جی کی میراسین وغیرہ نسائی کرداروں کی اہمیت سے ہم نا آشنا نہیں، ویسے بھی ایک پانچ ہزار سال پرانا تہذیبی قول ہے کہ ❞مکمل عورت وہی ہے جو صبح کی پوتر پوجا کی طرح ماں ہو، شام کے سائے میں جامنوں اور آموں کے باغ میں ساتھ کھیلنے والی بہن، دھوپ کے کھیتوں میں ساتھ تپنے والی جیون ساتھی اور رات کی سیج پرویشیا ہو❝ میر حسن کی مثنوی ❞سحر البیان❝ کے محرکات میں میر حسن کی وہ عشق ورزیاں اور چہل بازیاں شامل ہیں، جن کا تعلق فیض آباد نوابی محلات کی پُر تعیش فضا سے تھا، جرات تو دیدہ بازیاں کیا ہی کرتے تھے اور ان کی شاعری میں معاملہ بندی کا جو شوخ رنگ ملتا ہے اس کے بارے میں میر نے کہا تھا ❞میاں تم شعر کہنا کیا جانو، اپنا چوما چاٹا کہہ لیا کرو❝ مہندر سنگھ بیدی نے ایک مضمون میں لکھا کہ عشق ہوجائے کسی سے کوئی چارہ تو نہیں، اس لیے اردو میں محبوب مرد پرستی کی صورت میں بھی ملتا ہے اور شکلِ نسوانی میں بھی، شاعروں کو چھوڑیے صوفیوں میں بھی رجحان پایا جاتا تھا، حضرت امیر خسرو کے ایک جگری دوست حسن تھے، وہ اپنے دور میں یوسفِ ثانی درجہ رکھتے تھے، امیر خسرو اور حسن ایک جان دو قالب کی طرح ساتھ ساتھ رہتے تھے، سمرقند وبخاری کو محبوب کے ایک تل پر قربان کرنے والے خیالات مالک حافظ شیرازی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ مردوں سے مردوں کی محبت کے رجحان کی طرح انہی کے دیوان کے انگریزی ترجمے کے بعد مغرب میں پڑی، میر کے اس نوعیت کے شعر زبان زد عام ہیں، میر کیا سادہ ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب، اسی عطار کے لونڈے سے دواء لیتے ہیں.

محبوب کے غم میں فانی بدیوانی شوپنہار کی طرح غم پرست اور میر کی طرح قنوطیت پسند تھے، فانی نے ایک عشق کیا تھا جس کی کوئی خاص تفصیل یا معتبر حوالہ نا پید ہے، البتہ جوش نے یادوں کی بارات میں ان کے بارے میں اس قدر لکھا ہے کہ ❞فرصت کے اوقات میں مقدمات کی مثلیں دیکھنے کے عوض مجھ کو اپنی معشوقہ کی تصویر دکھاتے اور پہروں اس کی داستانیں سناتے تھے❝

ولی دکنی ایک صوفی شاعر تھے، اس کے باوجود ان کے کلام میں امرد پرستی اور عشق صنفِ نازک دونوں کی بو آتی ہے، انہوں نے شمس الدین، گوبند لال، امرت لال اور سید معالی جیسے امردوں کا ذکر کیا ہے، مثلاً:

ہر طرف ہے جگ میں روشن نام شمس الدین کا
چین میں ہے شور جس کے ابروئے پرچین کا

ڈاکٹر فرمان فتح پوری اپنے مضمون ❞داغ کی حیاتِ معاشقہ❝ میں لکھتے ہیں ❞بظاہر منی بائی حجاب سے داغ کا یہ زخمِ محبت ناسور بن گیا تھا، اس لیے داغ نے فریادِ داغ لکھنے کے بعد بھی حجاب سے تعلقات قائم رکھے، 20 سال بعد 1902ء میں حجاب پھر داغ کے پاس حیدر آباد پہنچ گئیں، اب وہ معاشقے کی صورت نہ تھی، دونوں میاں بیوی بننے پر رضا مند بھی ہوگئے، داغ آخر دم تک پیمانِ وفا نبھانے کی کوشش بھی کرتے رہے لیکن یہ سب وضعداری کی باتیں تھیں جسے لگاؤ کہتے ہیں، نہ وہ پہلے تھا اور نہ 20 سال بعد پیدا ہوسکا، غالب کی شادی شدہ زندگی میں ازدواجی بے وفائی کے دو واقعے ایسے ہیں جن کا اقرار خود غالب نے کیا ہے، غالب کی بیوی امراؤ بیگم بھی اس سے با خبر تھیں، ایک وہ تعلق جو رئیسانہ شان میں شامل تھا خوش مذاق مگر پابند قسم کی طوائف مغل جان کے مکان پر حاضری دل لگی اور خوش وقتی، دوسرا ان کی ایک ہم قبیلہ خاتون جو اپنا کلام غالب کو بغرضِ اصلاح بھیجا کرتی تھیں، حمیدہ سلطان نے اپنی نانی کی زبانی اُس خاتون کا تخلص ❞ترک❝ بتایا ہے، وہ لکھتی ہیں ❞جب اس شاعر کا انتقال ہوا غالب بیمار پڑگئے تھے، غالب کے معاشقوں کے ضمن میں ستم پیشہ ڈومنی کا ذکر نظر آتا ہے، غالب نے ایک جگہ لکھا ہے ❞میں نے بھی ایک ستم پیشہ ڈومنی سے عشق کیا اور اسے مار رکھا، مغل بچے بھی غضب کے ہوتے ہیں جس پر مرتے ہیں اسے مار رکھتے ہیں❝ یہ حقیقت ہے غالب اپنی تمام تر خوش گفتاریوں کے باوجود حسن پرست ہی رہے کسی ایک کے ہوکر نہیں رہے، میر تقی میر جن کو ان کے گھر میں بیٹا عشق کرو کی تلقین ملی تھی ایک دنیا دار آدمی تھے، نو عمری کی عشقیہ واردات کے بعد ایک مدت تک جنون کی کیفیت سے نبرد آزما رہے.

مصائب لاکھ تھے پر جی کا جانا
عجب اک سانحہ سا ہوگیا ہے
نظیر اکبر آبادی ایک قلندر صفت انسان تھے، روزانہ اپنے مریل ٹٹو پر سوار ہوکر اس بازار سے گزرتے، کسبیوں سے پان کے بیڑے وصول کرتے اور ہنسی مذاق کرتے جاتے، حکیم مومن خان مومن نے پہلا عشق نو برس کی عمر میں اپنی ہمجولی پڑوسن کی ایک لڑکی سے کیا جو دو برس تک جاری رہا، اس لڑکی کی اچانک موت نے ایک عرصہ انہیں افسردہ کیے رکھا، اس عالم میں ان کی ایک عزیزہ اپنی بیٹی سیما کے ساتھ ان کی تیمار داری کے لیے آئی، سیما مہمان بن کر آئی اور ان کے دل کی مالک ہوگئی، تنہائی کے جو بھی مواقع میسر آئے مؤمن نے ہر ہر موقعے کو خوب کشید کیا، دوپہر میں جب سب سوجاتے ان دونوں کے بخت جاگ جاتے، وہ دونوں محوِ نشاط تھے کہ کسی کی نظر پڑگئی، خبر عام ہوگئی، اتنی سی عمر اور یہ حرکات، سزا کے طور پر نزلہ سیما کے سر گرا، اور اسے واپس بھیج دیا گیا، تم ہمارے کسی طرح نہ ہوئے، ورنہ دنیا میں کیا نہیں ہوتا.

حکیم مؤمن کے نام کے ساتھ ایک طوائف اُمت الفاطمہ صاحب جی کا نام وابستہ ہے، جس طرح سورج سے اس کی کرنیں اور چاند سے اس کی چاندنی، علامہ شبلی نعمان نے پہلی بیوی کی وفات کے بعد دوسری شادی 1900ء میں جس خاتون سے کی وہ مولانا سے بہت چھوٹی تھیں، اتنی چھوٹی کہ مولانا اس بات پر راضی تھے کہ شادی کے بعد کچھ وقت مجردی میں گزرا دیں، تاہم یہ خاتون 1905ء میں چل بسیں، انہی ایام میں وہ عطیہ فیضی سے ملے، ان کے عشق کا اندازہ جہاں تک ان کے کلام سے ہوتا ہے اس کی نوعیت کم وبیش جنسی ہے، یہی وجہ ہے کہ، قاضی احمد میاں جونا گڑھی کو کہنا پڑا کہ ان کی غزلیں گرما گرم ہیں، اور حالی یوں گویا ہوئے ❞کوئی کیونکر مان سکتا ہے کہ یہ اس شخص کا کلام ہے جس نے سیرۃ النعمان، الفاروق اور سوانح مولانا روم جیسی مقدس کتابیں لکھی ہیں، عطیہ فیضی اپنی خاندانی ڈائری میں علامہ شبلی کے بارے میں لکھتی ہیں ❞بے چارے بڈھے میاں گو کہ پرانی وضع کے ہیں مگر خیالوں میں وسعت ایسی ہے کہ کاش آج کل کے نئی روشنی والوں میں ذرہ سی یہ بات ہوتی❝ عطیہ فیضی نے ایک یہودی آرٹسٹ فیضی رحمین سے شادی کر لی تو یہ عشق وقعت کھو بیٹھا، شبلی اور عطیہ فیضی کے معاشقے کا بہت شور رہا، لیکن شہاب الدین دسنوی نے اسے جھوٹ اور قابلِ استثناء قرار دیا.

مفکرِ پاکستان حضرت علامہ اقبال سے متعلق عام طور پر حسن وعشق کی داستانیں مشہور ہیں، یہ کس قدر بے سر وپا اور بے بنیاد ہیں یہ امر تحقیق طلب ہے، کہتے ہیں کہ وہ اپنے عنفوانِ شباب میں اپنے عہد کے دوسرے نوجوانوں سے مختلف نہ تھے، اپنی شامیں طوائفوں نسیم کشمیرن، بی بی سدا بہار، بی بی خورشید، ہجروکی کے ہاں جاتے اور حقہ کھینچتے، ایک مرتبہ ایک طوائف کا گلا دبا ہی دیا تھا اگر اس کو بچانے دلال نہ آ جاتے تو وہ اس کوٹھے سے قبرستان پہنچ گئی ہوتی، علامہ اقبال 1905ء میں یورپ گئے، وہاں عطیہ فیضی اور جرمن خواتین میں دیگے ناست، مس سنی شیل سے ملاقاتیں رہیں، ان سے ان کا ذہنی اور جذباتی تعلق رہا، خاص طور پر عطیہ فیضی جو مرکزِ ثقل کی حیثیت رکھتی ہیں، علامہ شبلی نعمانی اور علامہ اقبال کے کوائف تو منظرِ عام پر ہیں، جو ان کے خطوط سے واضح ہوتے ہیں، مگر حیرت ہے کہ عطیہ دونوں کے ساتھ پُر فریب رویہ قائم کیے رہیں اور ایک فاصلہ بھی، یہ وجہ ہے کہ ان کے رومانی تعلقات کی نوعیت یکطرفہ رہی، ایل کے گابا کے مطابق 52/51 سال کی عمر میں اقبال نے بہت کم سن لڑکی سے شادی کی، مقویات، مبیہات کے عادی ہوگئے، نتیجہ یہ ہوا کہ اعضائے رئیسیہ جواب دے گئے، ایک ہندو ڈاکٹر سے معلوم ہوا کہ اقبال V. D. جیسی علامات رکھنے والے مہلک مرض کے نرغے میں آئے ہوئے تھے.

عشق میں کہتے ہیں حیران ہوئے جاتے ہیں
یوں نہیں کہتے کہ انسان ہوئے جاتے ہیں

چراغ حسن حسرت ابھی سکول کے طالبِ علم ہی تھے کہ ایک خوش گلو اور خوش رو مغنیہ ❞پونچھ❝ میں وارد ہوئی، وہ ایک رات کی مجلس میں اس کا گانا سننے گئے، اور اس خاتون پر نثار وشیدا ہوگئے، بزرگوں نے اس فعل پر لعن طعن کی اور پھر حسرت کو پونچھ چھوڑنا پڑا، برسوں بعد زینت بیگم سے شادی کی، حسرت جیسا کلاسیکل ذوق رکھنے والا حسن پرست ادیب شادی کے باوجود ان مکروہات سے دور نہ رہ سکا، رات کو کلبوں کا طواف بھی کرتا تھا، ممنوعہ علاقوں میں جاکر شجر ہائے ممنوعہ سے لطف اندوز بھی ہوتا تھا، فوجی ملازمت کے دوران سنگاپور میں اس کی ملاقات ایک نیم فرنگی خاتون مریانہ سے ہوئی، چھ ماہ کے عرصے پر محیط ان کا یہ طوفانی عشق ان کی دوبارہ وطن واپسی کی صورت میں ختم ہوا.

بلراج ورما کے خیال میں کرشن چندر عورت کے معاملے میں بہت کمزور تھے، راجندر سنگھ بیدی سے بھی زیادہ یہ شخص اخلاق سے بے تعلق تھا اور بہت بڑا عشق باز تھا، عشق مزاجی کرشن جی کے دل ودماغ بلکہ روح پر بھی تا عمر سوار رہی، سلمی صدیقی نے ان کی زندگی میں اگر اس بیمار روش کو روک نہ دیا ہوتا تو وہ دل کی بیماری سے نہیں کسی جنسی بیماری سے جاتے، اس اعتبار سے سلمی صدیقی کو ان کے لیے ایک بہت بڑا شگون سمجھتا ہوں.

میرا جی کے بارے میں یہ روایات عام ہیں کہ اس نے ایک بنگالی لڑکی میرا سین کو دیکھا اور اس کے عشق میں اس درجہ اسیر ہوا کہ اس نے اپنی ہیئت تبدیل کر لی، نہ صرف ثناء اللہ سے میرا جی بن گیا بلکہ محبوبہ کی ہر شئے حتی کہ اس کی زبان، مذہب، اور مذہبی روایات بھی اسے عزیز ہوگئیں، جنسی کج روی کا شکار ہوا، نگری نگری پھرا مسافر گھر کا رستہ بھول گیا.

فراق گورکھپوری عشق کے معاملے میں جنسی تفریق کے قائل نہیں تھے، وہ تو امرد پرستی کو بھی قابلِ اعتراض اور قابلِ مذمت نہیں سمجھتے تھے، جگر مراد آبادی نے پہلا عشق نوجوانی ہی میں مراد آباد کی انتہائی حسین طوائف سے عرفِ عام میں پنجابن کہلاتی تھی سے کیا، قابلِ ذکر معاشقوں میں روشن فاطمہ کا نام بھی ہے، جس کے لیے انہیں جیل بھی جانا پڑا، معروف غزل گو اصغر گونڈوی انہیں زندگی کی صحیح ڈگر پر لانے کے لیے اپنی نہایت سلیقہ شعار سالی نسیمہ خاتون سے ان کا نکاح کردیا، جگر کو سدھارنے کی ترکیب نا کام ہوئی تو انہوں نے یہ کہہ کر کہ تم نسیمہ کے لائق نہیں ہو ان سے طلاق دلوادی اور اپنی اہلیہ کو طلاق دے کر خود نسیمہ سے نکاح کر لیا، اس واقعے کو برسوں گزر گئے، یہاں تک کہ اصغر صاحب کا آخری وقت آن پہنچا اور وہ وصیت کر گئے کہ جگر جب بھی شراب سے توبہ کر لے نسیمہ سے ان کا نکاح کردیا جائے، تب جگر صاحب کے اندر کا انسان جاگا، وہ تائب ہوئے اور پھر نسیمہ سے دوبارہ شادی بھی ہوگئی.

ساحر لدھیانوی کو معاشقوں کا جادوگر کہا گیا، ساحر کے معاشقوں کی اس کی اپنی من گھڑت یا سچی سی داستانیں بہت ہیں، لیکن ان میں سب سے اہم نام ❞امرتا پریتم❝ ہیں جنہوں نے بعد میں اپنے اس معاشقے پر ❞رسیدی ٹکٹ❝ بھی چسپاں کردیا تھا تاکہ سند رہے، امرتا پریتم کے ایک بیٹے کی شکل ہو بہو ساحر جیسی تھی.

قمر زمانی بیگم بھی اردو ادب کی تاریخ میں اپنی نوعیت کا انوکھا کردار ہیں، سید نظام شاہ دلگیر نے 1913ء میں ایک ادبی رسالہ ❞نقاد❝ جاری کیا، اشاعت اچھی خاصی تھی، اس کے باوجود دلگیر نے اس کی اشاعت بند کردی، یار لوگوں نے کوشش کی یہ سلسلہ دوبارہ جاری ہو، لیکن دلگیر کسی طور نہ مانے، نقاد کے دوبارہ اجراء کے لیے یہ سلسلہ ایک دو سال جاری رہا، وہ حقائق جو نصف صدی تک پردہء اخفاء میں رہے انہیں ڈاکٹر فرمان فتح پوری نے اپنے مضمون ❞قمر زمانی بیگم علامہ نیاز فتح پوری کی انوکھی داستانِ معاشقہ❝ میں واضح کردیا.

سعادت حسن منٹو کے ابتدائی افسانوں میں لالٹین، مصری کی ڈلی بیگو، نا مکمل تحریر، ایک خط اور چند ایسے افسانے ہیں جن کا تعلق منٹو کی اپنی زندگی کی پہلی اور آخری محبت سے ہے، یہ واقعہ ❞بٹوٹ❝ کا ہے، جہاں منٹو تپِ دق کا علاج کرانے گیا تھا، بیگو یا وزیرن ایک خوب صورت لڑکی تھی، اور بکریاں چراتی تھی، وہ آوارہ اور بد چلن تھی، منٹو یہ بات جانتا تھا لیکن اس کے ساتھ ایک اندھے افلاطونی عشق میں مبتلا ہوگیا تھا، منٹو کی روح میں عجب ویرانگی تھی، وہ شوبز کی دنیا میں رہتے ہوئے بھی بے تعلق تھا، اپنے بارے میں خود کہتے ہیں ❞میری زندگی میں دو تین لڑکیاں آئیں مگر وہ نوکرانیاں تھیں، ان سے میرا تصادم ایسے ہی ہوا تھا جیسے سڑک پر راہ چلتے دو اندھے آپس میں ٹکرا جائیں اور چٹکیوں میں اس تصادم سے فراغت حاصل کر کے اپنی اپنی راہ لیں❝ اختر الایمان نے پہلا باقاعدہ عشق ایک شادی شدہ عورت قیصر سے کیا، شادی سلمی خاتون سے ہوئی، پہلے ہی روز اپنی سالی سے عشق کر بیٹھے بیوی نے ان کی بے اعتنائی کا شکار ہوکر ظہور نامی ایک رشتہ دار سے مراسم بڑھا لیے، اختر الایمان نے اسے طلاق دے دی، بعد ازاں سلطانہ سے عشق ہوا فسادات کے سبب والدین نے دلہن سلطانہ کو دولہا اختر الایمان کے حوالے کردیا، نہ ڈھولک بجی نہ ناچ گانا ہوا، بس وہ دو جوڑوں میں اختر الایمان کی بیوی بن گئیں.

ن م راشد کی پہلی شادی ان کی مرضی کے خلاف ہوئی، بیوی نہایت صابر اور سلیقہ مند خاتون تھیں، دوسری شادی ان کے ایک عشق کے نتیجے میں ایک یورپی خاتون سے ہوئی جس نے انہیں ناقابلِ بیان اذیتوں میں مبتلا کیے رکھا.

جانثار اختر شراب نوشی اور شاعری کی طرح عاشقی میں بھی مشہور رہے، ایک شادی شدہ خاتون فاطمہ زبیر سے تعلق رہا، فاطمہ زبیر کے دو لڑکوں کے نکاحی والد زبیر تھے، ان لڑکوں میں بڑے کا نام نثار پرویز تھا، اس کا ذکر صفیہ اختر کے خطوط میں کئی جگہ ملتا ہے.

عصمت چغتائی ایک بار فلم اسٹوڈیو گئیں، ان کے ایک بھائی کو علم ہوا تو وہ بہت ناراض ہوئے اور انہیں گھر سے نکل جانے کو کہا، وہ تاؤ میں آکر گھر سے باہر نکل آئیں، اتفاقاً شاہد لطیف اسی وقت عصمت سے ملنے کے لیے اپنی کار میں آئے، دیکھا کہ وہ گھر بدر کھڑی ہیں، کار میں بیٹھا کر اپنے گھر لے گئے، رات کی رات وہ شاہد لطیف کے گھر رہیں، صبح کو بمبئی کی ایک سوشل ورکر مسز سیانی نے انہیں ایک ہوسٹل میں جگہ دلادی، مگر شاہد کے گھر رات گزارنے والا معاملہ سکینڈل بن گیا، چار ونا چار یہی حل نکالا گیا کہ عصمت چغتائی مسز شاہد لطیف بن گئیں.

جوش ملیح آبادی کی ❞یادوں کی بارات❝ میں شامل اٹھارہ معاشقوں کے تذکرہ کو بھی ناقدین نے سخت تنقید کا نشانہ بنایا، اکثریت کا خیال تھا کہ ان کو جوش کے شاعرانہ طرزِ بیان ہی کا کرشمہ سمجھنا چاہیے، جوش نے امرد پرستی سے آغاز کر کے ہر طرح کے ناقابلِ یقین واقعات کا ہالا اپنے اطراف یوں بُنا ہے کہ اس سے روشن ہونے کے بجائے ان کا چہرہ دھندلا جاتا ہے، بہرحال اس حقیقت سے انکار یوں بھی نہیں کیا جاسکتا جب مصنف خود اعتراف کر رہا ہو، مس میری رومالڈ، مس گلیسنی، ج ب ع خ بہت سے ناموں کی ایک طویل فہرست ہے.

شاعر مزدور احسان دانش اپنی سوانح حیات میں ایک رقاصہ ❞شمعی❝ کا ذکر خود ہی کر بیٹھے.

فیض احمد فیض جب گورمنٹ کالج لاہور میں زیرِ تعلیم تھے، پہلے عشق کا تیر ان کے سینے میں اٹھارہ برس کی عمر میں لگا، بقول فیض انجام وہی ہوا جو ہوا کرتا ہے، اس کی شادی ہوگئی اور ہم نوکر ہوگئے، پہلے عشق کی ناکامی کا غم ابھی طاری تھا کہ امرتسر ایم او کالج میں فیض کی ملاقات ڈاکٹر رشیدہ جہاں سے ہوئی، انہوں نے انہیں کارل مارکس کی ایک کتاب ❞کمیونسٹ مینی فیسٹو❝ دی اور پھر فیض پکار اٹھے، مجھ سے پہلی سی محبت مرے محبوب نہ مانگ، سحاب قزلباش نے فیض احمد فیض کے بارے میں اپنا مضمون ❞ستارہ وفا❝ میں ایک جگہ لکھا ہے ❞فیض صاحب مجھے یقین ہے کہ وہ سیالکوٹن جو تھی نا! وہ آپ کی مسیحا اور بمبئی کی پنڈتانی اور یہ چھوٹی خاتون جو سگریٹ لینے گئی ہیں، ساری چھوٹی بڑی خواتین میدہ شہابی رنگت اور تیکھے نقشوں والی ہیں، اس لیے آپ کو اچھی لگتی ہیں❝ ایلس فیض کی رفاقت بھی انہی خصوصیات کے سبب نصیب ہوئی.

ساقی فاروقی نے احمد ندیم قاسمی کے نام ایک خط میں یہ جملہ لکھا ہے ❞شادی سے پہلے احمد ندیم قاسمی نے بھی ایک لڑکی سے عشق کیا تھا، جی ہاں! اس تعلق میں جنسی تجربات بھی شامل تھے، یہ آپ کا فقرہ ہے❝.

عبد الحمید عدم کا ایک کمپلیکس یہ بھی تھا کہ جب ان کی طبیعت خوش ہوتی تو وہ یہ چاہتے کہ کوئی حسینہ زلفیں بکھرا کر اور کالا لباس پہن کر ان کو شراب پلائے، جنگِ عظیم دوم کے دوران عدم ہندوستانی افواج کے ساتھ سات سمندر پار گئے تو وہاں ایک عراقی خاتون ملکیہ سے عشق ہوا، شادی کر کے ساتھ لائے، یہاں آکر اسے عدم صاحب کی پہلی شادی کا علم ہوا، وہ یہاں کے ماحول میں ایڈجسٹ نہ ہوسکیں اور وہ واپس چلی گئیں، عدم صاحب کو جہلم کی شاہدہ اس لیے اچھی لگتی تھی کہ وہ ملکیہ کی ٹرو کاپی (True Copy) تھی.

قتیل شفائی نے پہلا عشق جس کو وہ آخری عشق بھی کہتے ہیں کسی مطربہ سے نہیں بلکہ ایک نہایت باذوق اور سلجھی ہوئی خاتون سے کیا، جس نے ان کے لیے اپنا مذہب چھوڑا اور وطن بھی، لیکن وہ اس کے لیے اپنی بیوی بچوں کو نہ چھوڑ سکے، بقول حمید احمد سیٹھی معروف گلوکارہ اقبال بانو اور قتیل شفائی کے درمیان گہرا قلبی تعلق تھا، مطربہ کی ہر نظم میں اقبال بانو کی جھلک صاف نظر آتی ہے.

اک تو ہی دھنوان ہے گوری باقی سب کنگال

مصطفی زیدی نے اپنی زندگی بھرپور انداز سے گزاری، انہیں اپنی جرمن نژاد بیوی ویرا زیدی سے والہانہ لگاؤ تھا، جس کا ایک ثبوت لیہ میں ❞ویرا سٹیڈیم❝ کی صورت میں موجود ہے، ان کے اشعار بھی طوفانی معاشقوں کی خبر دیتے ہیں.

فنکار خود نہ تھی مرے فن کی شریک تھی
وہ روح کے سفر میں بدن کی شریک تھی
اس پہ کھلا تھا باب حیا کا ورق ورق
بستر کی ایک ایک شکن کی شریک تھی

دیگر معاشقوں کو چھوڑ کر شہناز تک آتے ہیں، یہ تعلق ان کی موت پر منتج ہوا، شاعروں نے اس واقعے پر خوب شعر کہے.

ان کو چھوڑ کر ہر زیدی مسموم ہوا
شہنازوں کے جسم بہت زہریلے تھے
اسے اجڑے ہوئے انسان کی دلداری نہ راس آئی
میں زیدی تھا مجھے شہناز کی یاری نہ راس آئی
محسن اب عشق نہ لے تجھ سے کسی زیدی کا مقاص
خود کو منسوب نہ کرنا کسی شہناز کے ساتھ

م ح سیاح کی تصنیف ❞مصری حسینہ❝ میں لکھا ہے۔ شورش کاشمیری اُس بازار میں کوثر نیازی کا پیچھا کرتا رہا جو مسلم لیگ ہائی سکول میں پہلا پیریڈ لینے کے بہانے وہاں آتا جاتا تھا، صوفی غلام مصطفی تبسم بازار شیخوپوریاں میں حقہ کشی کر کے ٹوٹ بٹوٹ مرغولے بناتا رہا، منٹو بھی تانگہ بانو کو نمبر الاٹ کرتا رہا، جبکہ تلقین شاہ دھوپ سے بچنے کے لیے سائے ڈھونڈتا پھرا، پروین شاکر اور ثروت حسین کی دساتانِ محبت ایک عرصہ ادبی حلقوں میں زیر بحث رہی، کچھ لوگوں کے خیال میں پروین شاکر کی بے وفائی نے ثروت حسین کی شخصیت پر منفی اثرات مرتب کیے، ثروت حسین نے ستمبر 1993ء میں ٹرین تلے آکر خودکشی کی کوشش کی اور دونوں پاؤں سے محروم ہوئے، 3 برس بعد 1996ء میں ایسی ہی ایک کوشش کے باعث دنیا سے رخصت ہوئے، بقول ندا فاضلی شکاگو (امریکہ) میں مقیم پاکستانی نژاد شاعر افتخار نسیم اردو ادب کے پہلے ❞گے❝ شاعر ہیں، جب سے انہوں نے اس راز کا انکشاف کیا ہے، اردو ادب کی تاریخ میں اور شاعروں کو بھی اپنے جیسا بنانے پر آمادہ ہیں۔

اب کچھ ذکر غیر ملکی ادیبوں کا بھی ہوجائے، نوبل انعام یافتہ رابندر ناتھ ٹیگور کی پہلی محبوبہ ❞نالنی❝ تھی، اور اس نام سے اسے زندگی بھر پیار رہا، مس مول، مس لانگ، مس ویوئیاں، وکامپوو، لوسی اسکاٹ کے علاوہ اپنی بھابھی ❞کاومبری❝ سے بھی انہیں مثالی عشق رہا، مرنا لینی کو ان کی شریک حیات بننے کا اعزاز ملا اور صرف 28 سال کی عمر میں اس کی وفات نے رابندر ناتھ ٹیگور کو ایک بار پھر اداس کردیا، ٹیگور اسے کبھی بھلا نہ پائے۔

عظیم ڈرامہ اور ناول نگار جارج برنارڈ شا ایک بہت ہی معمولی شکل وصورت کے انسان تھے، لیکن انہوں نے اپنی 94 سالہ زندگی بھرپور انداز سے گزاری، ان کے معاشقوں کی تعداد بہت زیادہ ہے، انہوں نے صرف ایک شادی ❞شارلٹ❝ سے کی، اپنی بیوی کے مرنے تک 45 سال اس کے ساتھ بسر کیے، یہ اور بات ہے کہ اس دوران معاشقوں کا سلسلہ بھی جاری رکھا، اداکارہ ایلن ایلس لاکیٹ، جینی پیٹرسن، فلورنس فار، جینیٹ اکرچ، ایننی بیافٹ، مے مورس، کارل مارکس کی بیٹی ایلز مارکس، ایڈتھ اسٹیلا بیرس سے ان کا تعلق رہا، ان کی بیوی شارلٹ کو شادی کے بعد بھی جنسی زندگی سے کوئی دلچسبی نہ تھی اور شارلٹ کا کہنا تھا کہ ❞کوئی بات نہیں وہ یہ ضرورت کہیں اور پوری کر سکتا ہے❝۔

انگریزی ادب کے ممتاز شاعر ونقاد ٹی ایس ایلیٹ کی پہلی بیوی کا ذہنی توازن درست نہیں تھا، اس نے 61 برس کی عمر میں عشق کیا اور شادی کی، انگریزی شاعری میں جواں مرگ جان گیٹس کو شاعر رومان کی حیثیت حاصل ہے، وہ جس لڑکی سے محبت کرتا تھا اس کا نام ❞فینی❝ تھا، وہ اس کے تیمار دار دوست براؤن سے ملی اور اس نے وفاداری بدل لی، بستر پر پڑا دیکھتا رہتا تھا کہ کس طرح اس کی محبوبہ اسے دھوکے میں رکھ کر اس کے ساتھی سے معاشقہ کر رہی ہے، وہ اپنے دکھ کو کاغذ پر اتار کر اپنے تکیے میں رکھتا رہتا تھا، اس کی موت کے بعد یہ خطوط سامنے آئے، اور انہیں بھی اس کی شاعری کی طرح عالمی شہرت ملی، ترکی کے عظیم شاعر ناظم حکمت نے پہلا عشق ایک گورنر کی بیٹی سے کیا جو اسے نہ مل سکی، ویرا روسی، نزہت، پرائے خانم سے شادیاں کیں، مشہور شاعرہ مایا کووسکی سے بھی عشق ہوا، فیض نے اس کی ایک مختصر نظم کا یوں ترجمہ کیا ہے:

ہم نے امید کے سہارے پر
ٹوٹ کر یوں ہی زندگی کی ہے
جس طرح تم سے عاشقی کی ہے

بیسوی صدی کے عظیم فلسفی برٹرینڈ رسل کا کہنا تھا کہ وہ کسی عورت کو سات یا آٹھ سال سے زیادہ نہیں بھگت سکتے، انہوں نے تین شادیاں کیں جو ناکام رہیں، موصوف کی حسن پرستی کا یہ عالم تھا کہ 70 سال کی عمر میں بھی ایک لیکچرار کی بیوی سے عشق کیا، امریکہ کا تخیل پرست شاعر ایڈگر ایلن پو اپنی بیوی ورجینا کی غیر جنسی کشش کا شیدائی تھا، بیوی کی موت کے بعد اسے اپنی موت تک پو کا یہی شعار رہا کہ جو بھی عورت اس کے راستے میں آئی اور اس نے اس کے اعصابی ذہن سے ذرا بھی اپیل کی اس کا جنسی تعاقب شروع ہوگیا، مسز وٹمن سے معاشقہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی۔

ایچ جی ویلز نے 1930ء کی دہائی میں اپنی ادبی عظمت کی انتہائی شہرت کے دوران اپنی ڈائری میں اپنے کچھ معاشقوں کا اعتراف کیا، یہ کتابی صورت میں بھی شائع ہوئے، جن میں سب سے زیادہ طوفان انگیز تعلق ریبکا ویسٹ کے ساتھ تھا جو خود ایک اچھی خاصی ادیب تھی۔

اپنی ہی آگ کے خس وخاشاک روسی شاعر پوشکن کے بارے میں اس کی ایک محبوبہ اپنی یادداشتوں پر مشتمل کتاب لکھتی ہے ❞اپنے برتاؤ میں بڑا ہی بے ڈھب آدمی تھا، گھڑی تولہ، گھڑی ماشہ، کبھی بالکل دبو، کبھی دھندلی اور زبردستی پر آمادہ، کبھی بے انتہاء ریجھا ہوا اور بعض اوقات بے لطف اور اینٹھا ہوا، کوئی کل سیدھی نہ تھی، نہ جانے دم بھر میں کیا ہوجائے، اپنے جذبات پردے میں رکھنا نہیں آتا تھا❝ مادام کیرن، آننا، زیزی، اولگا سے عشق رہا، نتالیا بیوی بنی۔

آسکر وائلڈ نے آکسفورڈ میں ایک لڑکی فلورنس سے پہلا عشق کیا، لیکن کچھ حاصل نہ ہوا، کیونکہ اس لڑکی نے کسی اور سے شادی کر لی، پیرس میں اس کی مس ٹسن سے محبت ہوگئی، پیسے کی کمی کی وجہ سے انہیں شادی کے لیے دس سال انتظار کرنا پڑا، آسکر وائلڈ ہم جنس پرستی کی طرف مائل تھا، اس کی حیات معاشقہ میں جس لڑکے کا خاص طور پر ذکر ہوتا ہے اس کا نام لارڈ ڈگلس تھا، وہ اس معاملے میں بہت بدنام رہا، حتی کہ انہی مشاغل کے سبب اس کی بیوی نے اس سے طلاق لے لی۔

شاعرِ اعظم دانتے نے پہلا اور آخری عشق ❞پی ٹرس❝ سے کیا، 24 برس کی عمر میں وہ مرگئی، اس صدمے نے دانتے کی زندگی کا رخ ہی بدل کر رکھ دیا، ممکن ہے اس کی شادی اگر پی ٹرس سے ہوجاتی تو ❞وائیٹیانوا❝ اور ❞ڈیوائن کامیدی❝ جیسے فنی شہ پارے منظرِ عام پر نہ آ پاتے، پی ٹرس کی موت ایک سال بعد گو اس نے شادی کر لی مگر اپنی ازدواجی زندگی میں دانتے کبھی سکھی نہ رہا۔

جرمنی کے شہرہء آفاق شاعر گوئتے کی زندگی بھی عشق ومحبت کی سرمستیوں سے کم سرشار نہیں رہی، کئی عورتیں اس کی زندگی میں داخل ہوئیں، حالات نے اسے ایک ایسی عورت گرشجانے ولپائس کے ساتھ شادی کرنے پر مجبور کردیا جو نہایت پھوہر، مغرور، بے حس اور بد زبان تھی۔

پستہ قد اور بڑے سر والے، یاسیت اور قنوطیت کے مفکر آرتھر شوپنہار کا عقیدہ تھا کہ جنسی جذبہ ارادے کا سب سے صریح اور واضح ترین اظہار ہے، اس نے اعتراف کیا میں کوئی صوفی، سادھو، یا سنت نہیں ہوں۔

اٹلی میں جہاں کوئی گناہ نہ کرنا سب سے بڑا گناہ سمجھا جاتا تھا، کیرولن ٹریزا، فرالین میڈون سے عشق کیے مگر وہ ٹھہرا ایک فلاسفر، اس کی قنوطیت غالب آگئی اور وہ ❞چھڑا❝ مرگیا۔

کارل مارکس کو 16 سال کی عمر میں ایک امیر زادی جینی وان ولٹیفائن سے عشق ہوگیا، جس سے  اس نے آٹھ سال بعد اپنی تعلیم مکمل کر کے شادی کی، اس نے سبز آنکھوں اور بھورے بالوں والی محبوبہ جینی سے سنجیدہ عشق کیا، بالآخر اس سے بھی شادی رچائی، مارکس نے دو معمولی معاشقے بھی کیے، ایک شادی شدہ اطالوی امیر کی بیوی سے اور دوسرا اپنی کزن انتو فلیس سے جو اس سے عمر میں 19 سال بڑی تھی، مارکس بہت شفیق طبیعت انسان تھا، اس کی طبیعت کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ وہ سولہویں صدی کی شہوانی شاعری اور ننگے لطائف کا زبردست رسیا تھا۔

ایک امیر روسی گھرانے میں پیدا ہونے والے لیو ٹالسٹائی نے اپنی ملازماؤں، گاشا، ویناشا اور کئی دیگر سے ناجائز تعلقات قائم کیے، 24 سال کی عمر میں اٹھارہ سالہ صوفیہ سونیا سے شادی کر لی، جس نے 13 بچے جنے، حیرت کی بات یہ ہے کہ وہ لوگوں کو تلقین کرتا رہا کہ وہ جنس کو ٹھکرا دیں اور تجرد کو اپنائیں۔

میکسم گورکی کو سوویت لٹریچر میں سب سے عظیم پرولتاری ادیب مانا گیا، وہ اپنی متضاد جنسی قدروں کے سبب تا عمر پریشان رہا، 13 سال کی عمر میں ایک نوجوان بیوہ سے عشق میں مبتلا ہوا، بعد ازاں اپنی عمر سے بھی دس سال بڑی اولگا سے اسے پیار ہوا، اس کے شوہر کے مرنے کے بعد، شادی بھی ہوئی، بعد ازاں اسے چھوڑ دیا، اور پروف ریڈر کیتھرین سے شادی رچائی، یہ بھی ناکام ثابت ہوئی، گورکی نے اسے ایک بار ❞بپھری ہوئی چڑیا❝ کا نام دیا تھا۔

جین جیکبسن روسو اور والٹیر جیسی شہرہء آفاق شخصیات بھی اپنی ذاتی زندگی میں برے کردار اور اعمال کی وجہ سے بدنام ہوئے، عمر بھر غیر شادی شدہ رہنے والے انگریز شعراء میں کالرج، پوپ، کوپر، کالنس، گرے، گولڈ اسمتھ وغیرہ کے نام آتے ہیں، دنیائے فلسفہ کا عظیم فلسفی نیتشے بھی  زندگی بھر گنوارا رہا، جن شاعروں کی شادی شدہ زندگی ناکام وناشاد رہی، ان میں شیکسپیئر، بائرن، ملٹن، شیلے وغیرہ قابلِ ذکر ہیں۔

ماخذات:
ماہنامہ انشاء کلکتہ کا خصوصی نمبر۔ ❞ادیبوں کی حیاتِ معاشقہ❝۔
ماہنامہ ❞سرگزشت❝ کراچی۔ ماہنامہ ❞شاعر❝ ممبئی۔
مصری حسینہ۔ مصنف م ج سیاح۔
دیگر قومی اخبارات۔